شادی کے لیے استخارہ کیسے کریں

شادی کے لیے استخارہ کیسے کریں

استخارہ آسان ہے ،مشکل نہیں ہے۔ استخارہ آپ خود با آسانی کر سکتے ہیں۔

انسان زندگی میں بہت سے فیصلے کرتا ہے۔ اور ان فیصلوں کے اثرات اس کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ کچھ فیصلے معمولی ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بھی جز وقتی ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ فیصلوں کے اثرات بہت دور رس ہوا کرتے ہیں۔


زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں ایک انتہائی اہم فیصلہ شادی کے لئے جیون ساتھی کے انتخاب کا ہے۔ شادی کا فیصلہ کسی شخص کی زندگی کے آئندہ کو طے کرتا ہے۔ یہاں ہم کسی معمولی بات کا تعیّن نہیں کر رہے ہوتے بلکہ یہاں تو آپ اپنے شریکِ زندگی کا انتخاب کرتے ہیں ۔ شریکِ زندگی کا انتخاب دراصل اپنی آئندہ زندگی کا انتخاب ہے سو اس معاملے میں محتاط رہنا بے حد ضروری ہے۔


یوں تو انسان اپنے تمام تر فیصلے اپنی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کرتا ہے۔ تاہم بحیثیت مسلمان ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان کی بصارت اور بصیرت بہر کیف محدود ہے اور وہ مستقبل کی کما حقہ پیش بینی نہیں کر سکتا۔ سو ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے سے اپنے اہم فیصلوں میں اللہ رب العزت سے مشورہ کریں، یعنی استخارہ کریں۔ یوں تو استخارہ شادی کے فیصلے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر اہم معاملے میں ہمیں اللہ سے مشورہ کر نا چاہیے تاہم شادی جیسے بڑے فیصلے سے پہلے استخارہ کرنا بے حد ضروری ہے


استخارہ کون کر سکتا ہے؟

چاہے شادی آپ کی اپنی ہو چاہے آپ کے کسی بہن بھائی یا بیٹے بیٹی کی۔ حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے استخارہ کر لینا بے حد ضروری ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ جس کی شادی ہو وہ لڑکا یا لڑکی خود استخارہ کرے۔ لیکن ان دونوں کے علاوہ کوئی ایسا شخص بھی استخارہ کر سکتا ہے جو حتمی فیصلہ کرنے کا مجاز ہو۔ یہ لڑکی یا لڑکے کے والد یا والدہ بھی ہو سکتے ہیں یا کوئی اور سرپرست بھی۔ کسی غیر متعلقہ فرد سے استخارہ کروانا ہرگز مناسب نہیں ہے۔


استخارہ کیسے کیا جائے

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھو۔


اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْم ۔ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ ۔ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ فِیْ دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ ۔ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ اَرْضِنِي بِه ۔


ترجمہ: اے اللہ ميں تجھ سے تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں ، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں كسى چيز پر قادر نہيں۔ تو جانتا ہے ، اور ميں نہيں جانتا ۔ اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے ۔ الہٰى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجامِ كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كردے اور اسے آسان كر دے ، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما ۔ اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجامِ كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے (دور کردے) اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو ، پھر مجھے اس پر راضى كردے ۔


وضاحت: اس دعا میں اَنَّ هَذَا الأَمْرَ کی جگہ دعا مانگنے والا اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے ۔ اگر زبان سے عربی میں کہنا ممکن نہ ہو تو دل میں مطلوبہ کام کا خیال یا تصور لائے ۔

صحیح بخاری – حدیث نمبر 1162


تشریح : استخارہ سے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی خواب بھی دیکھا جائے یا کسی دوسرے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جائے کہ پیش آمدہ معاملہ میں کون سی روش مناسب ہوگی۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ طبعی رجحان ہی کی حد تک کوئی بات استخارہ سے دل میں پیدا ہو جائے۔ حدیث میں استخارہ کے یہ فوائد کہیں بیان نہیں ہوئے ہیں اور واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ استخارہ کے بعد بعض اوقات ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ استخارہ کا مقصد صرف طلبِ خیر ہے۔ جس کام کاارادہ ہے یا جس معاملہ میں آپ الجھے ہوئے ہیں گویا استخارہ کے ذریعہ آپ نے اسے خدا کے علم اور قدرت پر چھوڑ دیا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری طرح اس پر توکل کا وعدہ کر لیا۔


دراصل استخارہ کی اس دعا کے ذریعہ بندہ اول تو توکل کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ثابت قدمی اور رضا بالقضاءکی دعا کرتا ہے کہ خواہ معاملہ کا فیصلہ میری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہو وہ خیر ہی اور میرا دل اس سے مطمئن اور راضی ہو جائے۔ اگر واقعی کوئی خلوص دل سے اللہ کے حضور میں یہ دونوں باتیں پیش کر دے تو اس کے کام میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے برکت یقینا ً ہوگی۔ استخارہ کا صرف یہی فائدہ ہے اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ ( تفہیم البخاری )

تشریح ِ حدیث بشکریہ مکتبہ شاملہ


مختصر یہ کہ جب ہم اپنے فیصلے سے پہلے مسنون استخارہ کر لیتے ہیں تو ہمارے کام میں اللہ کی رضا شامل ہو جاتی ہے اور جس کام میں اللہ کی رضا شامل ہو جائے وہ بہترین ہو جاتا ہے۔ سو ہمیں چاہیے کہ شادی کے لئے رشتے کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے استخارہ ضرور کر لیں۔ پھر جو بھی اللہ کی رضا ہو اُس پر دل سے راضی ہو جائیں۔

نوٹ: براہِ کرم ایسے لوگوں سے گریز کریں جو لیپ ٹاپ وغیرہ پر فوری استخارہ کرکے دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا استخارہ خلافِ سنت ہے اور استخارے جیسے اہم دینی معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments